Featured image courtesy of DRM sources.
پاکستان میں کرونا وائرس کی وجہ سے لاک ڈاؤن جاری ہے۔ اور ایسے حالات میں پاکستان کی یونیورسٹیوں نے طلبہ کا تعلیمی سال بچانے کے لیے آن لائن کلاسسز کا آغاز کیا ہے۔ لیکن ان آن لائن کلاسسز کو لیکر میڈیا میں آج کل کافی زوروشور سے بحث جاری ہے ۔کہیں طلبہ ان کلاسسز کے معیار کو لیکر شکایت کرتے نظر آئے اور کہیں ارباب اختیار اس شکایت کا نوٹس لیتے اور ان کے ازالے کے لیے یقین دیھانیاں کرواتے۔ لیکن اس سب میں میڈیا جو رپورٹ کرنے سے اجتناب کرتا نظر آیا وہ وزیرستان کے طلباء کا وہ احتجاج تھا جس میں وہ انٹرنیٹ کی عدم دستیابی کی وجہ سے سرے سے ان کلاسسز میں شامل نہ ہو سکنے کی شکایت کرتے نظر آرہے ہیں۔
پورے ملک میں طلباء کالجز و یونیورسٹیز کی بندش کے بعد آن لائن لیکچر حاصل کرنے کے سلسلے میں گھروں پر مستفید ہورہے ہیں لیکن بدقسمتی سے فاٹا کے طلباء اس دور میں انٹرنیٹ کی سہولت میسرنہ ہونے کی وجہ سے ان کلاسسز میں حصہ لینے سے محروم ہیں۔ ان احتجاجی طلبہ اور انتظامیہ کے درمیان اس سلسلے میں مذاکرات بھی ہوئے اور یقین دھانیاں بھی۔
ذرائع کے مطابق انتظامیہ اور ڈی پی او کے ساتھ مذاکرات میں طلباء نے سات سینٹرز پر سہولیات مہیا کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ لیکن انتظامیہ نے دو سینٹرز پر انٹرنیٹ کی سہولیات فراہم کرنے کا مطالبہ پورا کیا۔ جس کی وجہ سے طلباء اپنا احتجاج جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اور انتظامیہ اور طلباء کے درمیان ہونے والے حالیہ مذاکرات کامیاب نہیں ہو سکے۔
اے این پی کے رہنماء تاج وزیراور پی پی پی ضلعی صدر آمان اللہ وزیر اور پی ٹی ایم کے ایم این اے علی وزیر نے بھی اس دھرنے میں شرکت کی اور حکومت اور عسکری قیادت سے طلباءکے لیے انٹرنیٹ کی سہولت مہیا کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ احتجاجی طلباء کا کہنا ہے کہ اگر ان کے مطالبات پورے نہ ہوئے تو وہ اس احتجاج کا دائرہ کار وسیع کریں گے۔
وانا سٹوڈنٹس سوسائٹی کے مطابق انہوں نے احتجاج کو مزید بڑھانے کیلئے اور ایک نئے پاور کے ساتھ طریقہ کار تبدیل کرکے 9 اپریل کو اعظم ورسک میں آگاہی جلسے کا فیصلہ کیا ہے اور گاؤں گاؤں چھوٹے چھوٹے جلسوں کے شکل میں آگاہی مہم چلائی جائے گی۔ جس میں لوگوں کو دعوت دی جائے گا کہ وہ آئیندہ احتجاج کیلئے بڑے پیمانے پر جمع ہوں۔