Islamabad High Court update from July 30, 2021 | English story here.
وفاقی تحقیقاتی ادارہ (ایف آئی اے) اسلام آباد ہائیکورٹ کی جانب سے ایک ماہ کا وقت دیئے جانے کے باوجود ایسے ایس او پیز تیار کرکے پیش نہ کر سکا کہ جن کے ذریعے مستقبل میں انسداد الیکٹرانک کرائم ایکٹ کے تحت صحافیوں کو ہراساں کئے جانے سے روکا جا سکے۔ اس پر اسلام آباد ہائیکورٹ نے ایف آئی اے پر شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ایس او پیز کے لئے صرف ایک ہفتے کی مزیز مہلت دی ہے ۔
جمعہ کے روز اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ایف آئی اے کی جانب سے صحافیوں کو جاری نوٹس کیخلاف درخواستوں پر سماعت کی۔ سماعت کے دوران ایڈیشنل اٹارنی جنرل طیب شاہ عدالت کے روبرو پیش ہوئے اور بتایا کہ پیکا کی سیکشن 20کے تحت ایف آئی اے کو 22900شکایات موصول ہوئیں جن میں سے 30شکایات صحافیوں کے خلاف تھیں ۔اس پر چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ ایسا تاثر مل رہا ہے ایف آئی اے صرف سلیکٹو کارروائیاں کر رہا ہے ۔ صرف مخصوص نظریات کے حامل افراد کے خلاف کارروائی عجیب بات ہے ۔ عدالت نے سینئر اینکر ندیم ملک کو جاری نوٹس کا نام لئے بغیر حوالہ دیتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ ایک صحافی کو نوٹس بھیج کر کہہ دیا گیا اپنا سورس بتاو ۔ ایک صحافی کو نوٹس جاری ہوتو اثر دیگر صحافیوں پر بھی پڑتا ہے ۔ انسداد الیکٹرانک کرائم ایکٹ کے تحت صحافیوں کو ہراساں نہ کیاجائے۔ اس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل سید طیب شاہ نے کہا کہ ہم بھی یہ چاہتے ہیں یہ تاثر ختم ہو کہ صرف صحافیوں کے خلاف کارروائی ہوتی ہے۔۔۔
دوران سماعت چیف جسٹس اطہر من اللہ کا یہ بھی کہنا تھا کہ دیکھنے میں آیا ہے حکومتی اراکین کی شکایت پر ادارہ فوری کارروائی کرتا ہےجبکہ عام آدمی کی کوئی سنتا ہی نہیں ۔ ایک شہری نے ماحولیات کا معاملہ سوشل میڈیا پر اجاگر کیا اس کو بھی حراساں کیا گیا۔ کنول شوزب کی درخواست پرایف آئی اے اس شہری پر چڑھ دوڑی۔۔ کنول شوزب کی اس درخواست پر کارروائی نہیں ہونی چاہیے تھی۔ای الیون میں بارش سےکیا ہوا ہے؟ جب آپ ماحول تباہ کریں گے تو یہی ہوگا۔کیوں نہ جرمانہ عائد کرکے ایف آٗئی اے کیخلاف درخواست منظور کریں
۔ عدالت نے حکم دیا کہ مستقبل میں ایسے نوٹس جاری نہ ہوں اس کیلئے ایف آئی اے 8 اگست تک ایس او پیز کی رپورٹ طلب پیش کرے۔