کچھ دن پہلے حکومت پاکستان نے چپکے سے سوشل میڈیا کے متعلق نئے رولز کی وفاقی کابینہ سے منظوری لے لی اور وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی نے ان کو گزٹ میں شامل کرنے کے لیے خط بھی لکھ دیا۔ ان رولز کو لیکر پاکستانی صحافی برادری اور ہیومن رائٹس ایکٹوسٹ نے آواز بلند کی تو حکومتی نمائندوں نے ان کے تحفظات کو سنجیدہ لینے سے احتراز ہی برتا۔ لیکن جب سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی نمائندہ تنظیم نے وزیراعظم پاکستان کو ان رولز کی سنگینی کے متعلق خط لکھا اور ان رولز کے نتیجے میں پاکستان سے اپنے کام کو سمیٹنے جیسے اقدامات کے متعلق آگاہ کیا تب حکومت پاکستان اپنے خواب غفلت سے جاگی اور ان مجوزہ رولز پر سارے سٹیک ہولڈرز کے ساتھ کنسلٹیشن کا اعلان کیا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا واقعی یہ حکومتی ڈسکشن سنجیدہ نوعیت کی ہوں گی اور کیا سٹیک ہولڈرز کی تجاویز کو سامنے رکھتے ہوئے حکومت نئے رولز بنانے کی طرف جائے گی؟
صحافی اور سوشل میڈیا ایکسپرٹ اس حکومتی اقدام کو محض ڈنگ ٹپاؤ کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ اور ان کے خیال میں حکومت صرف وقتی طور پر دباؤ کو کم کرنے کے لیے ایک کنسلٹیشن پراسسں شروع کر رہی ہے اور وہ انہی رولز کو لاگو کرنے میں بہت زیادہ سنجیدہ ہے۔ اگر حکومت کو ان رولز پر کوئی سیرحاصل بحث کرنی ہوتی تو وہ اسں وقت بھی کر سکتی تھی جب وہ یہ رولز بنا رہی تھی۔ حالانکہ سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی نے متعلقہ وزارت کو یہ ہدایت کی تھی کہ ان رولز کو پہلے کمیٹی میں ڈسکسں کیا جائے اور وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی نے ان رولز کو ڈسکس کیے بغیر وفاقی کابینہ سے پاس کروا لیا۔
دوسری طرف حکومت یہ دعوا کر رہی ہے کہ سارے سٹیک ہولڈرز کے ساتھ مشاورت میں سنجیدہ ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کے ایک رہنما جو کہ پارٹی کے سوشل میڈیا ونگ کے کرتا دھرتاؤں میں شمار ہوتے ہیں کا کہنا ہے کہ حکومت تمام سٹیک ہولڈرز کے ساتھ مشاورت میں بہت سنجیدہ ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وفاقی کابینہ سے منظور شدہ رولز ابھی لاگو نہیں ہوئے۔اور نہ ہی ان کو گزٹ میں شامل کیا گیا ہے۔ حکومت تمام تجاویز کو کھلے دل و دماغ سے سنے گی اور سٹیک ہولدرز کو آن بورڈ لے کر رولز بنائے گی۔
کیا ایسا ہو گا؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جسں کا جواب آنے والے چند دنوں میں تو واضح ہو جائے گا۔ لیکن اگر آپ تھوڑا سا بھی غور کریں تو آپ اس کا جواب ابھی بھی ڈھونڈ سکتے ہیں ۔ میڈیا سے حکومت اور وزیراعظم کی بڑھتی شکایات اور اپنے وزرا کو ٹی وی اور اخبار سے دور رہنے کے مشورے مستقبل کی نشاندہی کے لیے کافی ہیں۔ اسی میڈیا کے سہارے عمران خان اقتدار کی سیڑھی چڑھے ہیں اور اب یہی میڈیا ان کو برا لگتا ہے۔ اپوزیشن اور حکومت میں ترجیحات بدل ہی جاتی ہیں۔ اپوزیشن میں میڈیا کی آزادی موافق تھی، حکومت میں نہیں ہے۔ اسی طرح اپوزیشن میں سوشل میڈیا آزاد چاہیے ہوتا ہے لیکن حکومت میں ہوتے ہوئے سوشل میڈیا پر ہوتی تنقید کا راستہ روکنا ضروری ہوتا ہے۔ اور اسں وقت حکومت اور ریاست کم از کم میڈیا اور سوشل میڈیا کے حوالے سے ایک پیج پر ہیں۔اور اس پیج پر لکھا پڑھنا کوئی خاص مشکل نہیں بشرطیکہ آپ پڑھنا چاہتے ہوں۔