January 20, 2020 —
پاکستان تحریک انصاف کے وزیر فیصل واڈا کی جانب سے کاشف عباسی کے شو میں بوٹ لیکر آنے کے واقعہ کے بعد پیمرا کی جانب سے رات گئے کاشف عباسی پر دو ماہ کی اچانک پابندی اور اگلے چوبیس گھنٹوں میں اس پابندی کے خاتمے کو لیکر کافی چہمگویاں ہوتی رہیں کہ یہ پابندی کیسے اور کس کے کہنے پر لگی اور پھر اتنی جلدی ختم کیسے ہو گئی؟ اس سارے راز پر سے پیمرا حکام نے اب پردا اٹھا دیا ہے۔
قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے اطلاعات و نشریات میں ارکان کمیٹی کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے پیمرا حکام نے انکشاف کیا کہ اس پروگرام کے حوالے سے انہیں کوئی شکایت موصول نہیں ہوئی۔ اور نہ ہی پیمرا نے یہ پابندی کسیکے کہنے پر لگائی ہے۔ پروگرام اور اینکر پر پابندی لگانے کا فیصلہ پیمرا نے اپنی ایک اعلی سطحی میٹنگ کے بعد کیا۔ اس موقع پر پیمرا حکام کو کمیٹی ممبران کے تندوتیز سوالات کا سامنا رہا۔
کمیٹی ممبر ناز بلوچ نے استفسار کیا کہ بغیر شوکاز نوٹس جاری کئے پابندی کیسے لگا سکتا ہے؟ پیمرا حکام واضح کریں کہ انہوں نے کس پروسیجر کے تحت شوکاز نوٹس جاری کئے بغیر پابندی لگائی اور پھر اس پابندی کو چوبیس گھنٹوں میں ختم کرنے کا فیصلہ کس قانون کے تحت تھا۔ اس موقع پر کمیٹی چیئرمین میاں جاوید لطیف کا کہنا تھا کہ پابندی کو ختم کر کے پیمرا نے خود ہی ثابت کیا کہ ان کا پابندی لگانے والا فیصلہ غلط تھا۔ انہوں نے پیمرا حکام سے سوال کیا کہ جو شخص پروگرام میں بوٹ لیکر آیا اس کے خلاف کیا کاروائی کی گئی ہے؟ ان کا مزید کہنا تھا کہ روزانہ ٹی وی پر بیٹھ کر کچھ اینکر اور تجزیہ کار جھوٹی اور بے بنیاد خبریں پھیلا رہے ہوتے ہیں اور کوئی پوچھنے والا نہیں۔ پیمرا بھی صرف طاقتور کا ساتھ دیتا ہے۔
کمیٹی ممبران کی تنقید اور تندوتیز سوالات کے سامنے پیمرا حکام کافی بےبس نظر آئے اور انہوں نے تفصیلی جواب کے لیے وقت مانگ لیا۔ کمیٹی چیئرمین نے اکیس جنوری، منگل کی صبح دس بجے بریفنگ کے لیے طلب کر لیا۔